اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

842,439FansLike
9,978FollowersFollow
560,700FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

ماں ، اور دھرتی ماں !!

کھمبی خان پور کے قبرستان میں عین غروبِ آفتاب سے کچھ لمحے قبل کا منظر کچھ یوں تھا کہ لوگ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ٹولیوں کی صورت کھڑے باہم مصروفِ گفتگو تھے تحصیل پریس کلب سرائے عالمگیر کے سابق صدر ، کہنہ مشق صحافی و ریذیڈنٹ ایڈیٹر ’’روزنامہ جذبہ جہلم‘‘ ڈاکٹرمحمد خلیل کی والدۂ محترمہ آج قضائے الہی سے انتقال فرما گئیں ہیں اوریہ سب لوگ انہیں تسلی و دلاسہ دینے اور ان کی والدہ محترمہ کی نمازجنازہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں اور میں ان سب سے ذرا فاصلے پر کھڑا اس شش وپنج میں ہوں کہ زمین اور ماں کے درمیان کتنا اٹوٹ اور مضبوط رشتہ ہے ماں ، اور دھرتی ماں !!
جی ہاں ماں کی طرح دھرتی ماتا بھی سب کچھ بھلا کر ہمہ وقت آغوشِ رحمت و شفقت وا کیے رہتی ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں ان کی تکریم، ان کا اعزاز، ان کا مقام، ان کا مرتبہ، اپنی جگہ ، یہ تو انہیں بھی جو اس کے سینے پر مونگ دلتے ، ظلم وستم اور جبر و تشدد کا بازار گرم کیے رہتے ہیں اپنے دامنِ محبت میں جگہ عطا کرتی ہے انہیں سوچوں میں غلطاں تھا کہ دور سے کلمۂ شہادت اور اشہد ان لااِلٰہ الا اللہ وحدہ۔۔ کی آوازیں سماعتوں سے ٹکرائیں ۔ انسانی نفسیات ہے کہ سماعتوں سے جیسے ہی کوئی آواز ٹکراتی ہے نگاہیں میکانکی انداز میں مقامِ صدا کی طرف اٹھتی چلی جاتی ہیں ۔ انسانوں کا جم غفیر تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دورونزدیک کا شاید ہی کوئی شخص ہو گا جو یہاں موجود نہ ہو۔ جنازہ قبرستان کے مین گیٹ سے گذرتے ہوئے ،جنازہ گاہ کی سمت لایا جا رہا تھا پہلے سے یہاں موجود لوگوں نے صفیں ترتیب دینا شروع کر دیں میں اگلی صف میں جنازے کے بالکل قریب تھا اس لئے یہ تو نہ جانچ سکا کہ کل کتنی صفیں ہیں مگر بادی النظر میں یہ دیکھ پایا کہ جنازہ گاہ مکمل طور پر انسانی سروں سے بھر چکی تھی ، جنازہ پڑھا گیا دعا ہوئی اورلوگوں نے فرض کفایہ کی ادائیگی سے فارغ ہوتے ہی ڈاکٹر خلیل اور ان کے بھائی کو گھیرے میں لے لیا سب کوشاں تھے کہ ان سے اظہارِ تعزیت میں اوّلیت حاصل کی جائے ، میں ذرا سا ہٹ کر کھڑاہوگیا اور سوچوں کی ڈور وہیں سے سلجھانے لگا جہاں جنازے سے قبل الجھی تھی ۔ بس چندہی لمحوں کی بات تھی ماں ، ماں کو اپنی آغوش میں لینے والی تھی ۔ ماں جو انسانی شعور میں رشتوں کی جان پہچان کا سب سے مضبوط اور مقدس حوالہ ہے ، ماں جو سو عیب دیکھ کر بھی یوں محسوس کرواتی ہے جیسے اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں ، ماں جو اولاد کی بھوک کی خاطر کھانے کی چیز سے ناپسندیدگی کا اظہار یا بھوک نہ ہونے کا بہانہ کر کے الگ ہو جاتی ہے کہ اس کے وجود کے ٹکڑے اپنا پیٹ بھر سکیں ۔ ماںجو شدید سرد راتوں میں ساری ساری رات گیلے بستر پر گذارکر اولاد کو ہمیشہ خشک بستر دان کرتی ہے ، ماں جو محبت و رحمتِ خداوندی کا پرتو ہے ، ماں جو شورش میں اطمنان ، کڑکڑاتی دھوپ میں چھاؤں اور مخالفت کی تیز لہروں میں بہترین جائے پناہ ہے میں نے ڈاکٹر خلیل کے حزن و ملال میں ڈوبے چہرے کی طرف جب بھی دیکھا اللہ جانے مجھے کیوں ایسا لگا کہ مرحومہ والدہ کے جسدِ خاکی سے ایک ہیولہ اٹھا اور اس نے ڈاکٹر خلیل کو اپنی نرم گرم آغوش میں لے لیا ہے اور مسلسل تسلی اور دلاسہ دے رہا ہے کہ نہ گھبرا میری دعائیں قدم قدم پر تیرے ساتھ ہیں
اس سمے میرا ذہن صدیوں پیچھے عرب کے ریگزاروں میں چلا گیا میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ کائنات کی مہربان ترین شخصیت نمیدہ آنکھوں سے فرما رہی ہے ’’ کاش مجھ محمدﷺ کی امّی زندہ ہوتیں ،میں حالتِ نماز میں ہوتا وہ مجھے میرے نام سے مخاطب کرتیں اور میں نماز سے ان کی طرف جاتا اور ان کی بات سنتا‘‘ پھر قرآن مجید فرقانِ حمید کی آیات کے مفاہیم بھی دماغ میں گونجنے لگے (1) والدین کے ساتھ احسان (2) بڑھاپے میں ان کی خدمت (3) ان کے ساتھ اونچی آواز میں نہ بولنا، اف تک کہنے کی ممانعت (4) نرم و شیریں گفت گو کا حکم (5) ان کے سامنے عاجزی سے رہنا (6) ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کرتے رہنا ‘‘ یاد رکھو یہ تمھارے فرائض میں شامل ہے
ذہن کے کسی کونے میں چھپی مغربیت نے سر اٹھایا تو ’’افلاطون جی‘‘ کی صدا گونجی اس بات سے ہمیشہ ڈرو کہ ماں نفرت سے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔
’’ملٹن جی ‘‘کہہ رہے تھے کہ آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے۔’’ڈاکٹر ہیوگو‘‘ بھی پاس ہی تھے بولے میں زندگی کی کتاب میں سوائے ’’ماں‘‘ کے اور کسی کی تصویر نہیں دیکھتا
’’حضرت علامہ محمد اقبال ‘‘ کی شاعرانہ و مفکرانہ صدا گونجی کہ سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے ۔
٭ اگر مجھے ماں سے جدا کر دیا جائے تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ (حکیم لقمان)٭ ماں کا پیار ایسا ہے جو کسی کے سیکھنے اور بتانے کا نہیں۔ (ایمرسن) ٭ ماں نے مجھے جرنیل بنا دیا۔ (جنرل ایم ایچ انصاری)
ارسطو بولے کہ ماں سے ہمدردی کی توقع رکھنے کی بجائے ماں کا ہمدرد ہونا چاہئے یہ سنتے ہی مجھے نبیٔ رحمت ﷺ شدت سے یاد آئے صحیح بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! میں کس کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کروں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اس کے بعد؟ تو فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اس نے عرض کیا: اسکے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اور اس نے کہا: اسی کے بعد: تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنے باپ کے ساتھ۔
تدفین مکمل ہو چکی تھی میں بھی ڈاکٹر خلیل سے گلے ملا اظہارِ تعزیت کیا اور چلا آیا
مگر ایک احساس مسلسل تب سے اب تک جان کو لاحق ہے کہ ماں کیلئے پل بھر میں اکٹھے ہو جانے والو !!!!!
دھرتی ماں کی محبت میں کب نام نہاد مذہبی ، ثقافتی ، لسانی اور داخلی و خارجی اختلافات بھلا کر یگانگت ، اتفاق ، اتحاد اور باہمی محبت کا مظاہرہ کرو گے ۔ دھرتی ماں منتظر ہے