اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

1,032,366FansLike
10,006FollowersFollow
582,100FollowersFollow
207,706SubscribersSubscribe

منشیات کا استعمال زہر قاتل: رانا اعجاز حسین

بس اسٹینڈ کے قریب لوگوں کا ہجوم تھا، اندھیرے میں پولیس اور ریسکیو گاڑیوں کی لائٹیں ٹمٹما رہی تھیں۔ قریب جانے پر معلوم ہوا آج پھر کوئی نشے کا عادی جان کی بازی ہار گیا ہے۔

سن کر دل سے آہ نکلی، نہ جانے کس ماں کا لخت جگر ہوگا، نہ جانے کس گھر کا چراغ گل ہوا ہوگا، نہ جانے کب تک نشے کی لعنت ہمارے نوجوانوں کی زندگیاں نگلتی رہے گی۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے کم عمر افراد نشے کو بطور فیشن اپناتے ہیں، جبکہ بالغ اور پختہ عمر کے لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کیلئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں لیکن بعد میں وہ ایسی عادت یا مجبوری بن جاتی ہے جس کو کوشش کے باوجود چھوڑنا ممکن نہیں رہتا۔

منشیات اتنی بری چیز ہے کہ یہ نہ صرف انسان اور اس کی زندگی بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے اسی وجہ سے منشیات کو لعنت کہا جاتا ہے۔ منشیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی سگریٹ نوشی ہے، جبکہ پہلے سے نشہ کے عادی افراد بھی منشیات فروشوں کے آلہ کار بن کر دوسروں کو مفت منشیات کی لت لگا کر بعد ازاں انہیں منشیات فروخت کرنے لگتے ہیں۔ منشیات کا استعمال اتنی بری عادت ہے کہ یہ انسان سے جائز و ناجائز ہر کام کروا لیتی ہے چاہے وہ کسی بے گناہ انسان کا قتل ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ جرائم کے واقعات کو دیکھا جائے تو آدھے سے زیادہ جرائم نشے کی وجہ سے ہوتے ہیں، بیشتر ٹریفک حادثات بھی عموماً اسی باعث رونما ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 15 سے 64 سال عمر کے تقریباً 35 کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں، جبکہ پاکستان میں 76 لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں جن مین 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔

latest urdu news

اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 55 اور دیگر صوبوں کے 45 فیصد افراد نشے کے عادی ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 5 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اپر کلاس لوگ آئس کرسٹل، حشیش، ہیروئن کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ مڈل کلاس کے لوگ فارماسیوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار اور سگریٹ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے سبب 70 ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن ہر سال پاکستان میں اس سے تین گنا زیادہ ہلاکتیں منشیات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کے مستقبل کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، جہاں منشیات سے 13 سے 25 سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہو رہے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کیلئے مخصوص ہسپتالوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جو موجود ہیں وہاں سہولتیں ناکافی ہیں جبکہ غیر سرکاری طور پر یہ علاج بہت مہنگا پیچیدہ اور طویل ہے۔ ہمارے معاشرے میں پان، نسوار، گٹکا، چھالیہ، سگریٹ جیسی نشہ آور اشیاء کو نشہ تصور ہی نہیں کیا جاتا، جبکہ درحقیقت انہی سے دیگر نشہ آور اشیاء کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔

منشیات میں سگریٹ، چھالیہ، نسوار، پان، چرس اور شیشہ وغیرہ کی مقبولیت کے بعد اب آئس نامی مہنگے نشے کا بھی اضافہ ہوگیا ہے جو کہ نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ نوجوانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آئس نشہ بہت ہی طاقتور اور اثرپذیر ہے، جس کی ایک خوراک ہی انسان کو اس کا عادی بنادیتی ہے۔ شفاف چینی کے دانوں کی شکل سے ملتے اس نشے کو گلاس یا کرسٹل کا نام بھی دیا جاتا ہے، جوکہ ایکسپائر ہوجانے والی ادویات پیراسٹامول، پیناڈول، وکس، اور نزلہ و زکام کی دیگر ادویات سے ایفیڈرین اور ڈیکسٹرو میتھارفن نکال کر تیار ہوتا ہے۔

latest urdu news

ماہرین نفسیات کے مطابق آئس کے استعمال کے اثرات انتہائی تباہ کن ہیں، جس سے انسان کا حافظہ کمزور ہوجاتا ہے اور یہ اعصابی امراض کے ساتھ گردوں اور جگر کے لیے بھی انتہائی مہلک ہے۔ بدقسمتی سے اس نشے کا استعمال تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پا رہا ہے، جہاں اسکول کالج اور جامعات کے لڑکے لڑکیاں اس کے استعمال کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ حلق کی خرابی، جگر کی خرابی، امراض قلب، قلت عمر، معدہ کے زخم، فاسد خون، تنفس کی خرابی، کھانسی، سردرد، بے خوابی، دیوانگی، ضعف اعصاب، فالج، ٹی بی، بواسیر، دائمی قبض، گردوں کی خرابی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اسی طرح لڑکیاں سیگریٹ کے علاوہ نشہ آور چیونگم کا استعمال کررہی ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے مختلف نشہ آور اشیاء کے استعمال پر قابو پایا جائے تاکہ ملک سے منشیات کی لعنت کا خاتمہ اور قوم کا مستقبل محفوظ ہوسکے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ معاشی اصلاح کا علم اٹھانے والی سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں اٹھایا جارہا۔ پاکستان میں انسداد منشیات کے قوانین پر عملدرآمد کروانے کیلئے اینٹی نارکوٹکس فورس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پولیس، ایف آئی اے، کسٹم، فرنٹیئر کانسٹیبلری، ایئر پورٹ سیکورٹی فورس اور دیگر ادارے تو موجود ہیں لیکن ان کے مابین رابطوں کے فقدان کی وجہ سے منشیات کی روک تھام میں اب تک واضح کامیابی نہیں مل پائی۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشرے سے منشیات کی لعنت ختم کرنے کے لیے اینٹی نارکوٹکس کو مزید فعال بنائے اور اس گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرکے ان ضمیر فروشوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے مشاغل کیا ہیں۔

ملک کی سماجی و رفاہی تنظیموں، جماعتوں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد، ڈاکٹرز و طبی امور سے وابستہ افراد کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے منشیات کی لعنت کے خاتمے کے لیے اپنی اپنی سطح پر اور اپنے دائرہ کار میں مکمل کوشش کریں۔

میڈیا کے وسائل کو نشہ مخالف ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہماری نوجوان نسل کو صحت مند سرگرمیوں کی ضرورت ہے، ان کو بنیادی سہولیات، کھیلوں کے میدان اور مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرسکیں۔

نوجوان نسل میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ نشے کو کبھی مذاق میں بھی استعمال نہ کریں اور نہ ہی کسی نشہ کرنے والے یا بیچنے والے شخص کے ساتھ دوستی کی جائے۔ کیونکہ جب آپ ایک مرتبہ کسی منشیات فروش یا استعمال کرنے والے شخص کے چکر میں پھنس کر نشے کے عادی بن جاتے ہیں تو پھر ساری زندگی اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے جو کہ تباہی و بربادی پر منتج ہوتی ہے۔

latest urdu news